سخاوت کا تعلق دل سے ہوتا ہے نہ کہ مال سے‘ کتنے لوگ ایسے ہیں جن کے پاس مال دولت‘ حشمت رقبے جائیداد‘ فیکٹریاں کوٹھیاں بینک بیلنس اور لاکر بہت زیادہ ہیں لیکن دل بہت مختصر اور کمزور ہے جس میں بخل بھرا ہوا ہے غنا نہیں بھرا ہوا اور دل کی دنیا ویران ہے آباد نہیں‘ کتنے لوگ ایسے ہیں جو مال دار تو نہیں لیکن سخی ضرور ہیں اور ان کے اندر سخاوت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ میرے ایک جاننے والے سبزیوں کے بیج کا کام کرتے ہیں چھوٹی سی دکان ہے کوئی بہت بڑا کاروبار نہیں لیکن ان کے مزاج میں میں نے سخاوت دیکھی ہے اور طبیعت میں کسی کو کھلا کر فرحت اور راحت دیکھی ہے‘ ایک اور جاننے والے چار بھائی ہیں ایک بھائی ایسا ہے جس کی طبیعت میں مروت بھی ہے‘ لحاظ بھی ہے برداشت بھی ہے اور سخاوت بھی‘ یہ چاروں صفات بہت کم لوگوں میں جمع بھی ہوتی ہیں اور باقی تین بھائیوں میں یہ تو نہ کہوں گا نہیں ہیں لیکن اس شخص کا اور اس بھائی کا مقابلہ وہ تینوں نہیں کرسکتے۔ میں نے ایک خاندان کو دیکھا عیال داری بہت‘ بچے بہت‘ گھر کے اندر سفید پوشی کی انتہا لیکن ان کی والدہ کھانا‘ پکا پکا کر لوگوں کو کھلاتی تھیں‘ آنے والے سائل کو دیتی تھیں‘ غریب پڑوسیوں کی غربت اور تنگدستی کا خیال رکھتی تھیں اور گھر میں غریبی لیکن صاف ستھرا گھر‘ پرانے لیکن صاف ستھرے کپڑے‘ یہ انداز ایسا ہے کہ جو بہت کم لوگوں میں ہے اور بہت کم لوگ اس انداز کو اختیار کرپاتے ہیں۔ مجھے بعض اوقات ایک احساس ہوتا ہے اور وہ احساس اس واقعہ کے ساتھ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے دوران سفر ایک صاحب باتوں باتوں میں کہنے لگے میری روزانہ کی آمدن دس لاکھ ہے لیکن وہ دوسروں کی ذات تو دور کی بات اپنے اور اپنے بچوں کی ذات پر خرچ کرتے ہوئے بہت زیادہ کتراتے تھے احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے اور بلکہ بیوی سے ایک ایک پیسے کا حساب لینا گھریلو ذمہ داری کا حصہ بنایا ہوا ہے اور بیوی ہروقت ہراساں اور پریشان رہتی تھی کہ میرے اوپر کیا مصیبت ہے؟ ایک تو گھر کا خرچہ اور رقم دیتے نہیں اور دوسرا اگر دیتے بھی ہیں تو ایک ایک پیسے کا حساب لیتے ہیں کیا وہ دس لاکھ روزانہ کا کمانا اس کے اور اس کے بچوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں‘ کس کام کا وہ سرمایہ جس سرمائے میں بخل کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہو۔ آئیے! میں آپ کو ایک عورت کا واقعہ سناتا ہوں چوک میں گھر تھا‘ لوگ شہر میں جانے کیلئے وہاں بیٹھتے۔ بس کا‘ بیل ریڑھیوں کا‘ گدھا ریڑھیوں اور رتھوں کا انتظار کرتے۔ غریب تو تھی لیکن دل کی سخی تھی‘ دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ یہاں کوئی سایہ بنوادوں‘ جس سے مخلوق خدا مستفید ہو‘ بارش گرمی‘ سردی‘ سے بچاؤ اور حفاظت رہے‘ انہوں نے کچا پکا تنکوں کا ایک سائبان ڈال دیا۔ لوگوں کو بہت راحت ملی اور لوگ دعائیں دینے لگے‘ پھر دل میں خیال آیا کہ پیاسے ہوتے ہیں کیوں نہ چند مٹکے پانی کے رکھ دئیے جائیں اور ساتھ مٹی کے کوزے بھی تاکہ لوگوں کی پیاس بجھتی رہے اور لوگوں نے اور زیادہ دعائیں دینا شروع کردیں۔ کچھ عرصہ کے بعد اور خیال آیا کہ لوگ آکر یہاں بھوکے ہوتےہیں اور خاص طور پر بچے بھوک سے بلک رہے ہوتے ہیں ان بچوں کو کھانا اور ان کو کھانا جتنا میسر ہو لنگر کی شکل میں دے دیا کروں‘ جب یہ فیصلہ ہوا تو اس کے شوہر نے پس و پیش کی‘ سو اعتراض اور سو باتیں کیں‘ وہ سنتی رہی سہتی رہی اور شوہر کا احترام اور اکرام بھی ساتھ ساتھ کرتی رہی لیکن بہانے بہانے سے اپنی سخاوت کو اس نے ہاتھ سے نہ جانے دیا‘ بس یہ سلسلہ سخاوت کا جاری رہا جب اس کے شوہر نے بہت زیادہ اسے زچ اور تنگ کردیا تو اسے کنویں سے پانی بھرنے کیلئے ساتھ لے گئی شوہر نے ایک ڈول پانی کا بھرا تو اس نے منع کیا کہ دوسرا نہ بھرنا تو شوہر چونک کر دیکھنے لگا کہ کیوں؟ کہنے لگی: ختم ہوجائے گا کہا کہ کیا کنوئیں کا پانی بھی کبھی ختم ہوتا ہے؟ بے ساختہ بولی اگر کنوئیں کا پانی کبھی ختم نہیں ہوتا تو پھر رب کی رحمت نہ ختم ہونے والی چیز اور جو مسافر اور غریب کھاجائیں وہ رزق بھی کبھی ختم نہیں ہوگا۔ بس شوہر کو یہ بات لگی اور دل پر لگی اور اس دن سے اس نے توبہ کی اور سخاوت میں اپنی بیوی کا ساتھ دیا۔ پھر تو غریبوں کے وارے نیارے ہوگئے اور وہاں ایک مضبوط سرائے بنوائی اور پھر پانی‘ رہنے‘ سونے کا انتظام کیا اور اسی طرح ان کی سرائے مشہور ہوگئی اور غریب بے سہارا لوگ وہاں آکر رہتے تھے اور مخلوق خدا ان کو دعائیں دیتی تھی۔ بالکل اسی طرح کی سرائے ایک لاہور میں مشہور تھی جس کو سرائے سلطان کہتے تھے میں جب بھی میانی صاحب لاہور کے بڑے قبرستان میں جو کہ میلوں میں پھیلا ہوا ہے جاتا ہوں تو سرائے سلطان کے مالک ٹھیکیدار سلطان کی قبر پر ضرور جاتا ہوں اور اللہ کا نام اس کی روح کو ہدیہ کرتا ہوں اور ایک احساس ہوتا ہے کہ آج دنیا میں سرائے مہمان نوازیاں اور مسافر کی ضروریات کا خیال ختم ہوگیا جب سے یہ چیزیں ختم ہوئی ہیں اس دن سے ہوٹلیں بنی ہیں اس سے پہلے ہوٹلوں کا گمان اور خیال ہی نہیں تھا اللہ تعالیٰ میری اور آپ کی طبیعتوں میں سخاوت اور دریا دلی پیدا کرے اور ہمارا مزاج اور ہماری طبیعتیں سخاوت کیلئے تیار نہ ہوں بلکہ مچلتی ہوں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں